پاکستان نے افغانستان کے بیان کی تردید کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے افغان حکومت کو ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کے کوئی شواہد پیش نہیں کیے ہیں ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ہے کہ پاکستان نے کئی موقعوں پر ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کے معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس میں افغان حکام کے ساتھ دو طرفہ بات چیت بھی شامل ہے.
ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا پاکستان نے افغانستان میں مقیم افراد کے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد شیئر کیے ہیں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کی تصدیق اقوام متحدہ سمیت متعدد آزاد رپورٹس سے ہوتی ہے اس ضمن میں پاکستان توقع کرتا ہے کہ افغان حکام ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کریں گے اور ان کی سرگرمیوں کو روکیں گے جو پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالتی ہیں.
ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے جواب دیا کہ وہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر پاکستان اور افغانستان کے درمیان انٹیلی جنس تبادلے کے حوالے سے تفصیلات بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس ضمن میں وزارت داخلہ سے رابطہ کیا جا سکتا ہے . ترجمان کے جواب پر ضمنی سوال کے جواب میں ممتاز زہرہ نے کہا کہ ہم نے مواصلات کے متعدد چینلز جن میں افغانستان میں پاکستانی سفارت خانہ بھی شامل ہے کے ذریعے ٹھوس شواہد شیئر کیے ہیں تاہم مواصلات کے کئی دوسرے چینلز بھی ہیں جہاں ہم نے افغانستان میں مقیم دہشت گرد گروپوں کے ملوث ہونے سے متعلق خدشات، ٹھوس شواہد اور دہشت گردی کی کاروائیوں کے حوالے سے آگاہ کیا ہے.
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں ہے تاہم افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے ایک اور سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر ایران کی جانب سے عالمی ثالثی عدالت میں جانے سے متعلق خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی قانونی ٹیم اور وزارت پٹرولیم اس معاملے کو دیکھ رہی ہے .
ترجمان دفتر خارجہ نے خان یونس میں اسرائیل کی جانب سے تاریخی مسجد پر بمباری کی شدید مذمت کی ہے ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم رکن ممالک میں انڈیا سمیت تمام دیگر اراکین ممالک کے سربراہان کو دعوت نامے بھیج دیے ہیں جن میں سے چند دعوت ناموں کی شرکت کی تصدیق موصول ہوئی ہے۔
وقت آنے پر آگاہ کیا جائے گا کہ کن ممالک نے تصدیق کی ہے.