لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواستوں پر پراسکیوشن سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیاہے. عدالت نے عمران خان پر درج مقدمات اور الزامات کی تفصیلات اور پراسیکیوٹر جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو بھی کل طلب کرلیا جسٹس طارق سیلم شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی عمران خان کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ سابق وزیراعظم کو جسمانی ریمانڈ کے لیے فزیکلی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اس بنیاد پر انسداد دہشت گردی عدالت کا جسمانی ریمانڈ غیر قانونی ہے.
وکیل نے کہا کہ عدالت عمران خان کا جسمانی ریمانڈ غیر قانونی قرار دے جس پر جسٹس انوار الحق پنوں نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ ملزم جج صاحب کے سامنے پیش ہوکر اپنی بات بیان کرسکے وکیل عثمان ریاض گل نے جواب دیا کہ جی بالکل قانون بھی یہی کہتا ہے قانون کے مطابق ملزم کی فزیکل حاضری عدالت میں لازمی ہے.
درخواستوں میں موقف اپنایا گیا ہے کہ لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے عمران خان کا جسمانی ریمانڈ حقائق کے منافی دیا بعد ازاں عدالت نے پراسکیوشن سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے. یاد رہے کہ 20 جولائی کو بانی تحریک انصاف عمران خان کی 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ دینے کے انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے خلاف درخواستیں لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کردی گئی تھیں درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ لاہور اے ٹی سی نے جسمانی ریمانڈ دیتے وقت ریکارڈ کا درست جائزہ نہیں لیا جیل میں قید ہوں اور پولیس پہلے بھی تفتیش کر چکی ہے.
درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ جسمانی ریمانڈ دیتے وقت قانون کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا لہٰذا لاہور ہائی کورٹ سے استدعا ہے کہ وہ اے ٹی سی کی جانب سے 12 مقدمات میں دیا گیا جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دے یاد رہے کہ 5 جولائی کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پولیس کی عمران خان کی 9 مئی کے بارہ مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر 10 روزہ ریمانڈ دے دیا تھا.