بلوچستان ہائی کورٹ نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کے خلاف ان کی رہائش گاہ کے قریب سرکاری اراضی پر قبضے کا مقدمہ خارج کر دیا،جسٹس محمد اعجاز سواتی اور جسٹس امیر نواز رانا پر مشتمل ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے فیصلہ سنایا جس میں صوبائی حکام کو ہدایت کی گئی کہ وہ ضلعی انتظامیہ کے حکم پر محمود اچکزئی کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کر دیں۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے اور ناکافی شواہد کی بنیاد پر فیصلہ سنایا۔پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین کیخلاف ایف آئی آر اس سال مارچ میں درج کی گئی تھی جب محمود اچکزئی اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار کے طور پر صدارتی انتخاب لڑ رہے تھے۔واضح رہے کہ اس سے قبل سرکاری اراضی قبضہ کیس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے وارنٹ گرفتاری معطل کر دئیے گئے تھے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ کوئٹہ نے وارنٹ گرفتاری کو معطل کر کے سماعت 31 مئی تک ملتوی کی تھی۔محمودخان اچکزئی پر تھانہ گوالمنڈی میں دفعہ 448 اور دفعہ 447 کے تحت مقدمہ درج کیاگیا تھا۔اس سے قبل 26 اپریل کو سرکاری اراضی قبضہ کیس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے تھے۔جبکہ 3 مارچ 2024 کو کوئٹہ انتظامیہ کی جانب سے پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تھا، جس کی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے شدید مذمت کی تھی۔
پارٹی نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ چھاپہ محمود اچکزئی کی رہائش گاہ پر مارا گیا اور یہ قومی اسمبلی میں محمود اچکزئی کی حالیہ تقریر کا ردعمل تھا۔ڈپٹی کمشنر سعد اسد نے کہا تھا کہ یہ چھاپہ محمود اچکزئی کی رہائش گاہ کے قریب واقع زمین کا ایک حصہ دوبارہ حاصل کرنے کیلئے کیا گیا تھا۔